Pages

Sunday, January 5, 2025

Muraqba karny ka tareeqa Sharait e Muraqib

 Muraqba karny ka tareeqa Sharait e Muraqib

دربیان شرائط مراقب  ( مراقبہ کرنے والا ) و مراقبات

1)    منجملہ مراقب کو چاہیے کہ  مراقبہ کے وقت کامل طہارت اور بجمیع خاطر اس طرح فیضان الٰہی کی طرف متوجہ ہو کہ سوا اصل مقصود اور کسی طرف میلان نہ ہو ۔

2)    یہ مراقبات ہر اس شخص کے لیے فائدہ مند ہیں  جو اہل سنت و جماعت ہے ور اس کے بعد تائب  ہو کر مرشد کامل سے اجازت حاصل کر چکا ہو ۔

3)    یہ مراقبات اس وقت تجویز ہوتے ہیں جبکہ مراقب مرشد کامل کی صحبت میں رہ کر لظائف عالم امر اور لطائف عالم خلق کی تکمیل کرے  اور ذکر الٰہی جاری ہو چکا ہو اور نفی اثبات کا جس طرح کہ ضروری ہے عامل ہو اس کے بعد مراقبات شروع کرے۔

4)    ہر مراقبہ میں توقف ایام کی تعداد مرشد موصوف کے حکم پر موقوف ہے ۔ کوئی کمال بدوں استاذ کے حاصل نہیں ہوتا ۔ تو جب اس راہ ( طریقت) میں آنے کی توفیق ہو ۔ استاذ طریق کو ضرور تلاش کرنا چاہیے جس کے فیض و تعلیم و برکت صحبت سے مقصود حقیقی تک پہنچے ۔

گر  ہوائے  ایں  سفر  داری  ولا

دامن  رہبر  بیگر  و   بیش     بیا

بے رفیق ہر کہ شد در راہ  عشق

عمر  بگذشت  و نشد  آگاہ  عشق

اے دل اگر اس سفر کی خواہش ہو تو رہبر  کا دامن پکڑ کر چلو۔  اس لیے کے جو  بھی عشق کی راہ میں بغیر رفیق کے چلا اس کی عمر گزر گئی ۔ اور وہ عشق سے آگاہ نہ ہوا ۔ باطنی راستہ کے لیے کوئی رفیق ساتھ لے لو ۔ تنہا اس راستے کو طے کرنے کا ارادہ نہ کر ۔ کیونکہ تو تنہا اس کو قطع نہیں کر سکتا۔

5)    ہر مراقبہ کی ایک اہمیت اور آثار ہوتے ہیں ۔ مراقب کو چاہیے جہ سنن اور آداب ِ طریقت کی پیروی ( متابعت ) کے خلاف نہ کرے ۔ تا کہ اس کی چاشنی اور کیفیت کو پا لے اور اس سلسلہ مین از حد کوشش کرے ۔ نیز اگر اس سے معدوم ہو جائے تو اپنی کوتاہیوں کی طرف متوجہ ہو۔                                                     ہرچہ ہست از قامت ماساز ہموار ماست                                       ورنہ تشریف تو بر بلائی کس کو تاہ نیست !

6)    مراقبہ کے وقت بیٹھا  رہے کہ اگر نیند کی حالت اس پر طاری  ہو تو تجدید وضو کی ضرورت نہیں ہے ۔کیونکہ مراقبہ میں کیفیت نیند بھی ہے۔ جیسا  کہ علامہ بحرالعلوم نے شرح فقہ اکبر میں کرامات اولیا ء کے باب میں تحریر کیا  اور تفصیل اسی مقام پر ہے ۔

7)    جو  واقعات حالت مراقبہ میں اس پر ظاہر ہوں ۔ بحضور مرشد عرض کرے ۔ بالخصوص عالم امر کے ظہور میں کہ اس مقام پر مشابہت بیچونیت کو دیکھے گا ۔ اپنے آپ کو اس صورت میں دیکھ کر فریفتہ نہ ہو ۔ کیونکہ بہت سے سادہ لوح حضرات اس وادی میں ہوئے ہیں  ( یعنی اسی مقام پر رہ جاتے ہیں )۔

8)    مراقب کو چاہیے کہ جن ایام کی گنتی پر معمور ہو اس مین غفلت اور سُستی  نہ کرے ہر طالب حق کو چاہیے کہ حتی الامکان کوشش کر کے مراقبات کی نیت کو یاد کر لے ۔ اور مشائخ کے طریقہ کو کسی وقت بھی ہاتھ سے نہ جانے دے کیونکہ جبہ اور دستار کا نام طریقت نہیں ہے ۔ اس لیے مشائخ کا طریقہ اپنائیے اور اپنی منزل کی ضروریات اور تقاضوں کو پہچانیے ۔                                                                                             ہر جال و کاہل و کہن سال                        کے لائق شخصیت دا و اقبال !                                                                                     (ہر جاہل و غافل و سست انسان بزرگی اور  اقبال کے لائق نہیں ہوتا) ۔ سالک کی تسلیک شیخ کامل و مکمل کی توجہ کے ساتھ مربوط ہے ۔

9)    طالب کو چاہیے کہ مرشد کی توجہات سے پورا  پورا فائدہ  اٹھائے تا کہ مراقبہ معیت  سے حاصل  ہونے  والے  ولایت  صغریٰ کے دائرے  کو تیزی سے عبور کر سکے ۔ ورنہ یہ مقام نہایت دشوار گزار ہے ۔ ہزاروں سلوک کے راہی اس وادی میں رک کر اپنی ترقی کی منزلیں کھو بیٹھے  ہیں اور اپنے آپ کی اور اپنے عروج کی کچھ خبر نہیں رکھتے اور وحدیت الوجود کے قائل ا س مقام میں انالحق  اور تمام شطحیات کے اقرار میں مبتلا ہوئے ہیں ۔ بہر حال میرے کامل و مکمل مرشدکی توجہات اس مقام پر اکسیر اعظم کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ یہ خاص طریقے سے اس مقام سے سلوک طے کروا کے ولایت کبریٰ کی دائرے میں شامل کر دیتی ہیں ۔ کہ طالب  اپنی تیز رفتاری سے حیران رہ جاتا ہے اور اس کے بعد وحدت الشہود کے گلستانوں میں جس قدر دیکھا ہے اہل سنت و جماعت کے بلند پایہ علماء کی آرا سے اتفاق کے سوا کوئی چیز اس کے مشاہدے میں نہیں آتی ۔ اور وحدت الوجود  کی تنگ رستہ عبارت سے کہ ان کو بیان کرنا انتہائی دشوار ہے اور بے ہوشی اور مدہوشی کا مرکز ہے آسانی تشریح و طریقہ کے ساتھ اس سے گزر دل اطمینان حاصل لیتا ہے۔

مراقبات شریف کی نیت فارسی میں یاد کرنا ضروری  ہے ۔ اردو صرف سالکین کا فائدے اور آسانی کے لیے لکھی گئی ہے۔ کیونکہ امام ربانی حضرت مجدد الف ثانی رحمۃاللہ علیہ نے نیت فارسی میں مقرر فرمائی ہے اس لیے دوسری زبان اختیار کرنے سے الفاظ بدل جاتے ہیں اور فیض ختم ہو جانے کا اندیشہ اور ترقی رُک جانے کا خدشہ ہے ۔ 

Muraqba

 Muraqba

مراقبہ، ترقیب سے مشتق ہے ۔اس کا معنی انتظارِ فیض کرنے کا ہے  ۔ اس میں چونکہ اللہ تعالیٰ کے فیض کا انتظار کیا جاتا ہے ۔ اس لیے اسے مراقبہ کہتے ہیں ۔ راز ِ الٰہی کے وقوف حاصل کرنے کے لیے آنکھ ،کان اور لب بند کرنا پڑتا ہے ۔

چشم بند و گوش بندولب بہ بند

گرنہ بینی سر حق بر من بخند

معمولات مظہریہ میں ہے کہ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ میں مراقبہ یہ ہے کہ پہلے آنکھ بند کرکے لطائف عشرہ میں سے کسی ایک لطیفہ کی طرف متوجہ ہونا چاہیے ۔ اور باری تعالیٰ جل جلالہ کی جانب سے اس لطیفہ پر فیض کا انتظار کرنا چاہیے ۔

ترجمہ: اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔

احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو  گویا تم اسے دیکھتے ہو اور اگر اس کو نہیں دیکھتے تو وہ تمہیں دیکھ رہا ہے اور فرمایا کے اللہ تعالیٰ کا دھیان رکھو اپنے مقابل پاؤ گے ۔                                           (راوہ احمدی و ترمذی)

مذکورہ حدیث ، مراقبہ کی صاف و صریح دلیل ہے۔ اس بات کا ہردم دھیان رکھنا کہ خدا ہم کو دیکھ رہا ہے اور  اس کی جانب سے مراقبہ ہے ۔

حضرت خواجہ خرد فرزند حضرت خواجہ باقی بااللہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب فوائح میں فرمایا مراقبہ یہ ہے کہ اپنی طاقت و قوت اور اپنے احوال و اوصاف سے منہ پھیر کر جمال الٰہی کا شوق اور اس کے عشق و محبت میں غرق ہو کر  خدا وند تعالیٰ کے انتظار میں متوجہ  ہو جانا ۔ ہمارے امام قبلہ حضرت شیخ بہاؤالدین نقشبندی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کہ مراقبہ کا یہ طریق تمام راستوں سے زیادہ قریب ہے ۔ مراقبہ کا ثبوت بہت سی آیتوں اور حدیثوں سے ہے ۔قرآن مجید میں ہے :

واذکر ربک اذا نسیت        ترجمہ: یعنی تو اپنے رب کو یاد کر جب تو اس کو بھول جائے ۔

حضرت خواجہ معصوم صاحب رضی اللہ عنہ نے متعدد جگہ اپنے مکتوبات میں فرمایا کہ اس آیہ مبارکہ میں مراقبہ کا بیان ہے ۔  مراقبہ تمام سلاسل کے بزرگوں کا معمول ہے ۔ بالخصوص حضرات نقشبندیہ اس کو بہت ہی اہم سمجھتے ہیں جیسا کہ عبارت مذکورہ سے ظاہر ہوا کہ خدا تک رسائی کے لیے یہ راستہ تمام راستوں سے زیادہ قریب ہے چنانچہ علامہ ابوالقاسم قشیری نے اپنے رسالہ زیر حدیث مذکور فرمایا :

شیخ کا ارشاد ہے نبی ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ تو اس کو نہیں دیکھتا تو وہ تجھ کو دیکھتا ہے ۔ یہ حالت مراقبہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ مراقبہ یہی ہے کے بندہ یہ یقین  رکھے کہ رب سبحانہ و تعالیٰ اس کے ہر حال کو جانتا ہے ۔ بندہ ہر دم اور ہر حال میں اس کا علم و یقین رکھے یہی بندہ کے لیے ہر خیر اور نیکی کی جڑ ہے ۔