قواعد و انشا پردازی
قواعد:
حرف: اردو زبان میں آواز کو ظاہر کرنے وال ہر وہ نشان جو الگ الگ پڑھا جائے حرف کہلاتا ہے ۔ ا،ب،پ،ت سے لے کر "ے" تک سب حروف ہیں ۔ انہیں حروف تہجی یا حروف ہجا کہتے ہیں ۔ حروف تہجی درج ذیل ہیں۔
ا ب پ ت ٹ ث
ج چ ح خ
د ڈ ذ ر ڑ ز ژ
س ش ص ض ط ظ
ع غ ف ق ک گ
ل م ن و ہ ء
ی ے
لفظ: حروف جوڑنے سے لفظ بنتا ہے جیسے
( ل-ا-ہ-و-ر) لاہور اور (ا-ک-ب-ر) اکبر بنتا ہے ۔
لفظ کی قسمیں: لفظ کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ 1- کلمہ 2 -مہمل
1- کلمہ : وہ لفظ جس کے کچھ معنی ہوں کلمہ کہلاتا ہے ۔
2- مہمل : وہ لفظ جس کے کوئی معنی نہ ہوں ، لیکن کلمہ کے ساتھ ملا کر بولا جائے مثلاً روٹی ووٹی ، جھوٹ موٹ اور بات چیت ۔ ان میں روٹی،جھوٹ ، بات کلمہ اور ووٹی ، موٹ اور چیت مہمل ہیں ۔
کلمہ کی قسمیں : کلمہ کی تین اقسام ہیں ۔ 1- اسم 2-فعل 3-حرف
1۔ اسلم خط پڑھتا ہے ۔ 2۔ اکرم نے لاہور سے پشاور تک ہوائی جہاز میں سفر کیا ۔ 3۔جیکی نام کا کتا سنی نام کے لڑکے کے پیچھے بھاگا۔ 4۔ اکرم دہم جماعت کے امتحان سے پاس ہوا۔
1- اسم: وہ کلمہ ہے جو کسی شخص ، چیز یا جگہ کا نام ہو ۔ اوپر کے جملوں میں اسلم،خط ،اکرم ، لاہور،پشاور ،ہوائی جہاز، جیکی،کتا،سنی،لڑکا،اکرم،دہم،جماعت اور امتحان اسم کی مثالیں ہیں ۔
2- فعل: وہ کلمہ ہے جس میں کسی کام کا کرنا ،ہونا یا سہنا کسی زمانے کے ساتھ پایا جائے ۔ اوپر کے جملوں میں پڑھتا ہے ،سفر کیا ,پیچھے بھاگا اور پاس ہوا فعل کی مثالیں ہیں ۔
3- حرف : وہ کلمہ جو نہ اسم ہو نہ فعل ہو اور نہ اس کے کوئی معنی ہوں بلکہ دوسرے کلموں کو آپس میں ملاتا ہو جیسے نے،سے،کو،تک ،میں،کو،کا،کے وغیرہ ۔
اسم کی اقسام بلحاظ بناوٹ
بناوٹ کے لحاظ سے اسم کی تین اقسام ہیں ۔
1) اسم جامد
2) اسم مشتق
3) اسم مصدر
1- اسم جامد : ایسا اسم جو نہ خود کسی کلمے سے بنا ہو اور نہ اس سے کوئی اسم بن سکے جیسے چاندی ،پہاڑ اور کرسی وغیرہ ۔
2- اسم مشتق : ایسا اسم جو کسی مصدر سے بنا ہولیکن اس سے پھر کوئی لفظ نہ بن سکے لکھنا سے لکھنے والا،لکھا ہوا، لکھائی ۔ پڑھنا سے پڑھنے والا اور پڑھائی وغیرہ ۔
3- اسم مصدر : ایسا اسم جو خود تو کسی کلمے سے نہ بنا ہومگر اس سے بہت سے الفاظ بنائے جا سکیں جیسے پڑھنا ،لکھنا،سونا وغیرہ۔مصدر کی پہچان یہ ہے کہ اس کے آخر میں "نا" آتا ہے ۔
اسم کی اقسام بلحاظ معنی
معنی کے لحاظ سے اسم کی دو اقسام ہیں ۔ 1) اسم نکرہ 2) اسم معرفہ
1- اسم نکرہ : وہ اسم جو کسی عام شخص ، جگہ یا چیز کا نام ہو اسم نکرہ کہلاتا ہے ۔ مثلا استاد ، کتاب ،شہر وغیرہ۔
2-اسم معرفہ : وہ اسم جو کسی خاص شخص ، جگہ یا چیز کا نام ہو اسم معرفہ کہلاتا ہے ۔ مثلا علامہ اقبال ، قرآن مجید ، پشاور وغیرہ ۔
اسم معرفہ کی قسمیں
اسم معرفہ کی چار اقسام ہیں ۔ 1) اسم علم 2) اسم موصول 3) اسم اشارہ 4) اسم ضمیر
1- اسم علم : اسم علم سے مراد وہ خاص نام ہے جو اشخاص کی پہچان کے لیے علامت کا کام دیتے ہیں جیسے قائد اعظم ، شمس العلما وغیرہ ۔
2-اسم موصول : ایسا اسم ہوتا ہے جب تک اس کے بعد والا جملہ نہ لگایا جائے اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آتا ۔ جیسے جو محنت کرے گا وہ پاس ہو گا ۔ جس نے نیکی کا کام کیا اس نے پھل پایا ۔ ان جملوں میں "جس" اور " جو" اسم ،وصول ہیں ۔
3- اسم اشارہ : یہ ایسا اسم ہوتا ہے جو کسی شخص یا چیز کی طرف اشارہ کر کے بولا جائے ۔جیسے یہ قلم اکرم کا ہے ۔ وہ کتاب میری ہے ۔ ان جملوں میں "یہ "اور "وہ "اسم اشارہ ہیں۔
4-اسم ضمیر : یہ ایسا اسم ہوتا ہے جو کسی دوسرے اسم کی جگہ بولا جائے ۔ جیسے اسلم محنتی لڑکا ہے ۔ وہ باقاعدہ سکول جاتا ہے ۔ اسے تمام اساتذہ پیار کرتے ہیں ۔ ان جملوں میں "وہ" اور " اسے " دونوں اسم ضمیر ہیں کیونکہ یہ اسلم کی جگہ استعمال ہوئے ہیں ۔
اسم علم کی اقسام
اسم علم کی پانچ اقسام ہیں ۔ 1۔ خطاب 2۔ لقب 3۔ تخلص 4۔ کنیت 5۔ عرف
1- خطاب : ایسا اسم (نام) ہے جو کسی شخص کو اس کی کسی خوبی کی وجہ سے حکومت کی طرف سے دیا جائے جیسے رستم زماں ، شمس العلما اور خان بہادر وغیرہ ۔
2-لقب : وہ خاص نام ( اسم ) ہے جو کسی خاص خوبی کی وجہ سے مشہور ہو جائے یا کسی خوبی کی وجہ سے قوم کی طرف سے دیا جائے جیسے ابراہیم خلیل اللہ ، موسیٰ کلیم اللہ ، قائد اعظم اور قائد ملت وغیرہ ۔
3- تخلص : اس مختصر نام (اسم ) کو تخلص کہتے ہیں جو شاعر اپنے اصلی نام کی بجائے شعروں میں استعمال کرتے ہیں ۔ جیسے حالی، غالب ، ذوق اور آزاد وغیرہ ۔
4-کنیت : ایسا نام ہے جو ماں ،باپ ،بیٹا یا بیٹی کے تعلق سے پکارا جائے جیسے ابنِ مریم ، اُمِ کلثوم اور ابو القاسم وغیرہ ۔
5- عرف : عرف ایسے نام کو کہتے ہیں جو اصلی نام کی جگہ محبت یا حقارت کی وجہ سے مشہور ہو جائے جیسے اشرف سے اچھو ۔ غلام محمد سے گاما وغیرہ ۔
اسم ذات
اسم (نام ) وہ اسم ہے جس سے ایک چیز کی حقیقت دوسری چیز سے الگ سمجھی جائے اور پہچانی جائے جیسے کتاب،مکان، کبوتر، قلم اور پتھر وغیرہ ۔
اسم ذات کی اقسام
اسم ذات کی پانچ قسمیں ہیں ۔
1) اسم مصغر یا تصغیر 2) اسم مکبر 3) اسم ظرف 4) اسم آلہ 5) اسم صوت
1- اسم مصغر یا تصغیر: وہ اسم ذات ہے جس سے کسی اسم کی چھوٹائی یا چھوٹا پن ظاہر ہوجیسے صندوقچہ ( صندوق سے) کتابچہ ( کتاب سے ) اور بچونگڑا ( بچہ سے ) وغیرہ ۔
2- اسم مکبر : اسم مکبر وہ اسم ذات ہے جس سے کسی اسم کی بڑائی یا بڑا پن ظاہر ہو جیسے ( پگڑی سے ) پگوڑ یا پگڑ ، (گھڑی سے )گھڑیال اور(بوری سے )بورا وغیرہ۔
3- اسم ظرف : اسم ظرف وہ اسم ذات ہے جس سے کوئی جگہ یا وقت ظاہر ہو جیسے دوپہر، رات ، صبح ، سکول ، مسجد ، ہسپتال وغیرہ ۔
4- اسم آلہ : اسم آلہ وہ اسم ذات ہے جس سے کوئی اوزار یا ہتھیار ظاہر ہو جیسے چھری ، چاقو، کلہاڑا ، کَسی ، ہتھوڑا وغیرہ ۔
5- اسم صوت : اسم صوت وہ اسم ہے جو کسی جان دار یا بے جان چیز کی آواز کو ظاہر کرتا ہو ۔ جیسے میاؤں میاؤں ( بلی کی آواز)، کائیں کائیں ( کوے کی آواز) ، سائیں سائیں ( ہوا کی آواز ) ، کٹ کٹ (مرغی کی آواز) ، چھم چھم( بارش کی آواز ) ، میں میں ( بکری کی آ و ا ز ) وغیرہ ۔
اسم صفت
اسم صفت وہ کلمہ ہو تا ہے جس سے یہ معلو م ہوتا ہے کہ کوئی شخص ، جگہ یا چیز کس قسم کی ہے ۔ یہ اسم دراصل کسی کی اچھی یا بری حالت ظاہر کرتا ہے ۔ جس چیز کی صفت بیان کی جائے اسے موصوف کہا جا تا ہے ۔ جیسے اچھا آ د می ، سبز پرچم ، خوب صور ت شہر ان میں اچھا ، سبز اور خوب صورت کو اسم صفت کہتے ہیں اور آ د می ، پر چم اور شہر کو مو صو ف کہا جا تا ہے ۔
جملہ
جس بات کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آ جائے اس بات کو قواعد میں جملہ کہتے ہیں ( الفاظ کا ایسا مجموعہ جس کا مطلب پوری طرح سمجھ میں آ جائے جملہ کہلاتا ہے ) ۔ مثلا
1- اکرم نے پانی پیا۔ 2- درخت ٹوٹ گیا ۔
پہلا جملہ چا ر الفا ظ سے اور دوسرا جملہ تین الفا ظ سے مل کر بنا ہوا ہے ۔
جملے کے حصے
جملہ کے دو حصے ہوتے ہیں ۔ 1- مسندالیہ 2 - مسند
جملے میں جس چیز یا شخص کے بارے میں کچھ کہا جائے اسے مندالیہ اور جو کچھ کہا جائے اسے مسند کہتے ہیں ۔ جیسے اوپر والے جملوں میں اکر م ا و ر درخت مسندالیہ اور پانی پیا اور ٹوٹ گیا مسند ہیں۔
جملے کے حصے
جملے کے تین حصے ہوتے ہیں ۔
فعل فاعل مفعول
فعل : ایسا کلمہ ہے جس میں کسی کام کا کرنا ، ہونا یا سہنا زمانے کےساتھ پایا جائے ۔ جیسے شازیہ خط لکھتی ہے ۔ وسیم کھانا کھائے گا ۔ اسلم کرکٹ کھیل رہا ہے ۔ ان جملوں میں لکھتی ہے، کھائے گا اور کھیل رہا ہے سب فعل ہیں ۔
فاعل : ایسا کلمہ جو کام کرنے والے کو ظاہر کرے جیسے درزی کپڑے سیتا ہے ۔ عظمیٰ کھانا پکا رہی ہے ۔ ان جملوں میں درزی اور عظمیٰ فاعل ہیں ۔
مفعول : وہ کلمہ جس پر فعل واقع ہو مفعول کہلاتا ہے جیسے اکرم قلم خریدے گا ۔ نعیم نےدروازہ بند کیا تھا ۔ ان جملوں میں قلم اور دروازہ مفعول ہیں ۔
فعل کی قسمیں ( بلحاظ زمانہ )
فعل ماضی: وہ فعل ہے جس میں کسی کام کا کرنا ،ہونا یا سہنا گزرے ہوئے زمانے مین پایا جائے جیسے عظمیٰ گئی۔ ارشد کھیل رہا تھا ۔ آپا کھانہ کھا چکی تھی وغیرہ ۔
فعل حال: وہ فعل جس میں کسی کام کرنا ، ہونا یا سہنا موجودہ زمانے میں پایا جائے جیسے احمد آتا ہے ۔ وہ کھیل رہا ہے ۔ سفینہ لکھتی ہے ۔
فعل مستقبل : وہ فعل جس میں کسی کام کا کرنا، ہونا یا سہنا آنے والے زمانے میں پایا جائے ۔جیسے اسلم کھیلے گا ۔ ندیم پڑھے گا ۔ شازیہ لکھے گی وغیرہ ۔
فعل ماضی کی اقسام
فعل ماضی کی چھ اقسام ہیں۔
1۔ ماضی مطلق 2۔ ماضی قریب 3۔ ماضی بعید
4۔ ماضی استمراری 5۔ ماضی شکیہ 6۔ ماضی تمنائی یا شرطیہ
1) ماضی مطلق : ایسا فعل جو گزرے ہوئے زمانے کو ظاہر کرے لیکن اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ فعل قریب کےزمانے میں ہوا ہے یا دور کے زمانہ میں ۔ جیسے علی سکول گیا ۔ اس نے خط لکھا ۔ اسلم نے عید کی نماز پڑھی وغیرہ ۔
2) ماضی قریب : ایسا فعل جو قریب کے گزرے زمانہ میں ہوا ہو اسے فعل ماضی قریب کہتے ہیں جیسے وسیم نے سبق پڑھا ہے ۔ شاہد نے قلم خریدا ہے ۔ عظمیٰ نے کپڑے دھوئے ہیں وغیرہ۔
3) ماضی بعید: ایسا فعل جو دور کے گزرے ہوئے زمانے میں ہوا ہو اسے فعل ماضی بعید کہتے ہیں۔ جیسے وسیم نے خط لکھا تھا ۔ شاہد نے قلم خریدا تھا۔ میں نے آم کھائے تھے وغیرہ۔
4) ماضی استمراری : ایسا فعل جو گزرے ہوئے زمانے میں بار بار اپنا جاری رہنا ظاہر کرے فعل ماضی استمراری کہلاتا ہے جیسے راشد کھانا پکاتا تھا ۔ ماجد نہا رہا تھا ۔ وسیم خط لکھا کرتا تھا وغیرہ ۔
5) ماضی شکیہ : ایسا فعل جو گزرے ہوئے زمانے میں ہوا ہو مگر اس کے ہونے میں کچھ شک پایا جائے جیسے وسیم سکول گیا ہو گا ۔ شاہد نے سبق پڑ ھا ہو گا ۔ عظمیٰ نے خط لکھا ہو گا وغیرہ۔
6) ماضی تمنائی یا شرطیہ : ایسا فعل جو گزرے ہوئے زمانے میں ہوا ہو ، اور اس میں کسی قسم کی تمنا یا شرط پائی جائے فعل ماضی تمنائی یا شرطیہ کہلاتا ہے ۔ جیسے اگر وہ محنت کرتا تو کامیاب ہو جاتا۔ کاش میں خط لکھتا وغیرہ ۔
No comments:
Post a Comment